Tuesday 31 October 2023

میرے پیارے اللہ میاں

‏انکل سرگم کے یومِ ولادت پر ان کی نظم پیش خدمت ہے 

فاروق قیصر عرف انکل سرگم کی دل کو چھوتی ہوئی ایک مشہور نظم "اللہ میاں " جسے ان کے ٹی وی پروگرام میں ان کا مشہور کردار “رولا “ سنایا کرتا تھا ۔

میرے پیارے اللہ میاں
دل میرا حیران ہے ،
میرے گھر میں فاقہ ہے ،
اس کے گھر میں نان ہے ،
میں بھی پاکستان ہوں ،
اور وہ بھی پاکستان ہے ،

میرے پیارے اللہ میاں ،
لیڈر کتنے نیک ہیں ،
ہم کو دیں وہ صبر کا پھل ،
خود وہ کھاتے کیک ہیں ،

میرے پیارے اللہ میاں ،
یہ کیسا نظام ہے ؟
فلموں میں آزادی ہے ،
ٹی وی پر اسلام ہے ،

میرے پیارے اللہ میاں ،
سوچ کے دل گھبراتا ہے ،
بند ڈبوں میں خالص کھانا ،
ان کا کتا کھاتا ہے ،
میرا بچہ روتے روتے ،
بھوکا ہی سوجاتا ہے ،

میرے پیارے اللہ میاں ،
دو طبقوں میں بٹتی جائے ،
ایسی اپنی سیرت ہے ،
ان کی چھت پر ڈش انٹینا ،
میرے گھر میں بصیرت ہے ،

میرے پیارے اللہ میاں ،
میری آنکھ کیوں چھوٹی ہے ؟
اس کی آنکھ میں کوٹھی ہے ،
میری آنکھ میں روٹی ہے ،

میرے پیارے اللہ میاں ،
تیرے راز بھی گہرے ہیں ،
ان کے روزے سحری والے ،
میرے آٹھ پہرے ہیں ،

میرے پیارے اللہ میاں ،
روزہ کھولوانے کی ان کو ،
دعوت ملے سرکاری ہے ،
میرا بچہ روزہ رکھ کر ،
ڈھونڈتا پھرے افطاری ہے ،

میرے پیارے اللہ میاں ،
یہ کیسا وٹہ سٹہ ہے ؟
این ٹی ایم کا سر ہے ننگا ،
پی ٹی وی پہ ڈوپٹہ ہے ،
( این ٹی ایم پہلا پرائیویٹ 
چینل تھا )

میرے پیارے اللہ میاں ،
بادل مینہ برسائے گا ،
اس کا گھر دھل جائے گا ،
میرا گھر بہہ جائے گا ،

میرے پیارے اللہ میاں ،
*چاند* کی ویڈیو فلمیں دیکھ 
کر اس کا بچہ سوتا ہے ،
میرا بچہ روٹی سمجھ کر
چاند کو دیکھ کے روتا ہے ،

میرے پیارے اللہ میاں
یہ کیسی ترقی ہے ؟
ان کی قبریں تک ہیں پکی
میری بستی کچی ہے

Thursday 22 June 2023

‏اور آہستہ کیجیے باتیں

‏اور آہستہ کیجیے باتیں
دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا

لفظ گِرنے نہ پائیں ہونٹوں سے
وقت کے ہاتھ اُن کو چُن لیں گے
کان رکھتے ہیں یہ در و دیوار
راز کی ساری بات سُن لیں گے۔

اور آہستہ کیجیے باتیں
دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا

آئیے بند کر لیں دروازے
رات سَپنے چُرا نہ لے جائے
کوئی جَھونکا ہوا کا آوارہ
دِِل کی باتوں کو اُڑا نہ لے جائے۔

اور آہستہ کیجیے باتیں
دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا

ایسے بولو کہ دِل کا افسانہ
دِل سُنے اور نِگاہ دُہرائے
اپنے چاروں طرف کی یہ دُنیا
سانس کا شور بھی نہ سُن پائے

اور آہستہ کیجیے باتیں
دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا

ظفرؔ گورکھپوری

میں نے مزدوروں کے ماتھے

میں نے مزدوروں کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا جن کے پیسوں سے امیروں نے مدینہ دیکھا