Thursday 7 April 2022

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا

ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا

اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا

ہم اور رسم بندگی آشفتگی افتادگی
احسان ہے کیا کیا ترا اے حسن بے پروا ترا

دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آ کر ٹک گئے
الطاف کی بارش تری اکرام کا دریا ترا

اے بے دریغ و بے اماں ہم نے کبھی کی ہے فغاں
ہم کو تری وحشت سہی ہم کو سہی سودا ترا

ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر
رستہ کبھی روکا ترا دامن کبھی تھاما ترا

ہاں ہاں تری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا

بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا رسوا ترا شاعر ترا انشاؔ ترا

Tuesday 5 April 2022

سفر میں رستہ بدلنے کے فن سے واقف ہے

‏‎سفر میں رستہ بدلنے کے فن سے واقف ہے
وہ شخص چہرہ بدلنے کے فن سے واقف ہے

کسی کو پنجرہ بدلنے کا شوق ہے روحیؔ
کوئی پرندہ بدلنے کے فن سے واقف ہے

~ ریحانہ روحی

Sunday 3 April 2022

Mera Nahien to wo

مرا نہیں تو وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے
اسے کہو کہ تعلق کو پھر بحال کرے

ایسے ہنس ہنس کے نہ دیکھا کرو سب کی جانب
لوگ ایسی ہی اداؤں پہ فدا ہوتے ہیں

دستار نوچ ناچ کے احباب لے اُڑے

دستار نوچ ناچ کے احباب لے اُڑے

سر بچ گیا ہے یہ بھی شرافت میں جائے گا

Dastaar = turban 
Ehbaab = friends, loved ones

میں نے مزدوروں کے ماتھے

میں نے مزدوروں کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا جن کے پیسوں سے امیروں نے مدینہ دیکھا