Wednesday 3 April 2024

‏مِٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر

مِٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر
چوپال پہ بُوڑھوں کی کہانی بھی سنا کر

معلوم ہُوا ہے یہ پرندوں کی زبانی
تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر

پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں
خیرات میںں چاندیں کا تقاضا نہ کیا کر

ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چُھپے ہوں
تُو شہرِ اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر

کیا خُوب لڑکپن تھا کہ ساون کے دنوں میں
تسکین ملا کرتی تھی بارش میں نہا کر

مانگے ہوئے سورج سے تو بہتر ہے اندھیرا
تُو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دُعا کر

ترتیب ترے حُسن کی مٹ جائے گی اک دن
دیوانے کی باتوں کو نہ بے ربط کہا کر

تحریر کا یہ آخری رشتہ بھی گیا ٹوٹ
کتنا ہوں میں تنہا ترے مکتوب جلا کر

آتی ہیں بہت رات کو رونے کی صدائیں
ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر

وہ قحطِ ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ
جگنو کو لئے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر

رفیق سندیلوی

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.

میں نے مزدوروں کے ماتھے

میں نے مزدوروں کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا جن کے پیسوں سے امیروں نے مدینہ دیکھا