Friday 10 May 2024

میں نے مزدوروں کے ماتھے

میں نے مزدوروں کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا
جن کے پیسوں سے امیروں نے مدینہ دیکھا

Friday 26 April 2024

بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے

بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے 
سب منتظر ہیں سامنے تشریف لائیے 

آواز میں تو آپ کی بے شک خلوص ہے 
لیکن ذرا نقاب تو رخ سے ہٹائیے 

*ہم مانتے ہیں آپ بڑے غم گسار ہیں* 
*لیکن یہ آستین میں کیا ہے دکھائیے*
 
اب قافلے کے لوگ بھی منزل شناس ہیں 
آخر کہاں کا قصد ہے کھل کر بتائیے

بادہ کشوں کی اصل جگہ میکدے میں ہے 
کس نے کہا کہ آپ بھی منبر پہ آئیے

Wednesday 3 April 2024

‏مِٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر

مِٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر
چوپال پہ بُوڑھوں کی کہانی بھی سنا کر

معلوم ہُوا ہے یہ پرندوں کی زبانی
تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر

پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں
خیرات میںں چاندیں کا تقاضا نہ کیا کر

ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چُھپے ہوں
تُو شہرِ اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر

کیا خُوب لڑکپن تھا کہ ساون کے دنوں میں
تسکین ملا کرتی تھی بارش میں نہا کر

مانگے ہوئے سورج سے تو بہتر ہے اندھیرا
تُو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دُعا کر

ترتیب ترے حُسن کی مٹ جائے گی اک دن
دیوانے کی باتوں کو نہ بے ربط کہا کر

تحریر کا یہ آخری رشتہ بھی گیا ٹوٹ
کتنا ہوں میں تنہا ترے مکتوب جلا کر

آتی ہیں بہت رات کو رونے کی صدائیں
ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر

وہ قحطِ ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ
جگنو کو لئے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر

رفیق سندیلوی

میں نے مزدوروں کے ماتھے

میں نے مزدوروں کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا جن کے پیسوں سے امیروں نے مدینہ دیکھا