اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں
مے کدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے
خالی شیشوں کی طرح لوگ اچھلتے کیوں ہیں
نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں
میں نہ جگنو ہوں دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں
روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.