ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے
دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے
پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں سوتے میں ہماری
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے
یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں
اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
اس شہر کے بادل تری زلفوں کی طرح ہیں
یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں آتے
احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.