Monday, 18 November 2024

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے

دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے

پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں سوتے میں ہماری
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے

یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں
اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے

اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

اس شہر کے بادل تری زلفوں کی طرح ہیں
یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں آتے

احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے


No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.

جلد بچھڑیں گے یہ آثار نظر آتے ہیں

‏میں بتاؤں گی نہیں تم کو مگر آتے ہیں جلد  بچھڑیں گے یہ  آثار  نظر  آتے ہیں بعد میں جا کے اکڑتے ہیں، خدا بنتے ہیں و...