پاگل ہـے جو دنیا میں وفا ڈھونڈ رہا ہـے
خود اپنے ہی ہاتھوں سے وہ گھر اپنا جلا کر
اب سر کو چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہا ہـے
کل رات کو یہ شخص ضیا بانٹ رہا تھا
کیوں دن کے اجالے میں دیا ڈھونڈ رہا ہـے
شاید کے ابھی اُس پہ زوال آیا ہوا ہـے
جُگنُو جو اندھیرے میں ضیا ڈھونڈ رہا ہـے
کہتے ہیں کہ ہر جاہ پہ موجود خُدا ہـے
یہ سُن کے وہ پتّھر میں خُدا ڈھونڈ رہا ہـے
أسكو تو کبھی مُجھ سے محبت ہی نہیں تھی
کیوں آج وہ پھر میرا پتا ڈھونڈ رہا ہـے
کس شہرِ مُنافق میں یہ تُم آ گئے ساغرؔ
اک دوجے کی ہر شخص خطا ڈھونڈ رہا ہـے
ساغرؔ صدیقی