کوئی کانٹا چبھا نہیں ہوتا
دل اگر پھول سا نہیں ہوتا
کچھ تو مجبوریاں رہیں ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں سامنا نہیں ہوتا
جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا
رات کا انتظار کون کرے
آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا
کوئی کانٹا چبھا نہیں ہوتا
دل اگر پھول سا نہیں ہوتا
کچھ تو مجبوریاں رہیں ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں سامنا نہیں ہوتا
جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا
رات کا انتظار کون کرے
آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا
میں غزل ہوں مجھے جب آپ سنا کرتے ہیں
چند لمحے مرا غم بانٹ لیا کرتے ہیں
جب وفا کرتے ہیں ہم صرف وفا کرتے ہیں
اور جفا کرتے ہیں جب صرف جفا کرتے ہیں
لوگ چاہت کی کتابوں میں چھپا کر چہرے
صرف جسموں کی ہی تحریر پڑھا کرتے ہیں
لوگ نفرت کی فضاؤں میں بھی جی لیتے ہیں
ہم محبت کی ہوا سے بھی ڈرا کرتے ہیں
اپنے بچوں کے لئے لاکھ غریبی ہو مگر
ماں کے پلو میں کئی سکے ملا کرتے ہیں
جو کبھی خوش نہ ہوئے دیکھ کے شہرت میری
میرے اپنے ہیں مجھے پیار کیا کرتے ہیں
جن کے جذبات ہوں نقصان نفع کی زد میں
ان کے دل میں کئی بازار سجا کرتے ہیں
فکر و احساس پہ پردہ ہے حیاؔ کا ورنہ
ہم غلط بات نہ سنتے نہ کہا کرتے ہیں
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے
ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے
آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے
میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے
منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پہ بلا لوں گا اشارہ کر کے
میں بتاؤں گی نہیں تم کو مگر آتے ہیں جلد بچھڑیں گے یہ آثار نظر آتے ہیں بعد میں جا کے اکڑتے ہیں، خدا بنتے ہیں و...