Saturday, 21 December 2024

Mujh Ko Sambhal, Khud Bhi Sambhal

Mujh Ko Sambhal, Khud Bhi Sambhal, Main Nashe Mein Hun.  
Aye Jaan E Ghazal Sath Mein Chal, Main Nashe Mein Hun.

Aur Akbar Bhi Main, Saleem Bhi Main, Shah Jahan Bhi Main,  
Lakhon Bana Do Taj Mahal, Main Nashe Mein Hun

Monday, 9 December 2024

‏دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے

‏دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے 
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے 

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو 
شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے 

آنکھوں کو بھی لےڈوبا یہ دل کا پاگل پن 
آتے جاتے جو ملتا ہے ، تم سا لگتا ہے 

اس بستی میں کون ہمارےآنسو پونچھے گا 
جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے 

دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں 
شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے 

کس کو پتھر ماروں قیصرؔ کون پرایا ہے 
شیش محل میں اک اک چہرا اپنا لگتا ہے

 قیصر الجعفری

Thursday, 21 November 2024

کچھ تو مجبوریاں رہیں ہوں گی

 کوئی کانٹا چبھا نہیں ہوتا

دل اگر پھول سا نہیں ہوتا


کچھ تو مجبوریاں رہیں ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا


گفتگو ان سے روز ہوتی ہے

مدتوں سامنا نہیں ہوتا


جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں

کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا


رات کا انتظار کون کرے

آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا

Wednesday, 20 November 2024

میں غزل ہوں مجھے جب آپ سنا کرتے ہیں

 میں غزل ہوں مجھے جب آپ سنا کرتے ہیں

چند لمحے مرا غم بانٹ لیا کرتے ہیں


جب وفا کرتے ہیں ہم صرف وفا کرتے ہیں

اور جفا کرتے ہیں جب صرف جفا کرتے ہیں


لوگ چاہت کی کتابوں میں چھپا کر چہرے

صرف جسموں کی ہی تحریر پڑھا کرتے ہیں


لوگ نفرت کی فضاؤں میں بھی جی لیتے ہیں

ہم محبت کی ہوا سے بھی ڈرا کرتے ہیں


اپنے بچوں کے لئے لاکھ غریبی ہو مگر

ماں کے پلو میں کئی سکے ملا کرتے ہیں


جو کبھی خوش نہ ہوئے دیکھ کے شہرت میری

میرے اپنے ہیں مجھے پیار کیا کرتے ہیں


جن کے جذبات ہوں نقصان نفع کی زد میں

ان کے دل میں کئی بازار سجا کرتے ہیں


فکر و احساس پہ پردہ ہے حیاؔ کا ورنہ

ہم غلط بات نہ سنتے نہ کہا کرتے ہیں

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے


آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر

لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے


ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے

وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے


آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے

چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے


میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی

تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے


منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے

چاند کو چھت پہ بلا لوں گا اشارہ کر کے

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو

یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو

بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو

آج ہم بھی تری وفاؤں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو

تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو

وقت کی چند ساعتیں ساغرؔ
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو

Monday, 18 November 2024

آپ کا اعتبار کون کرے

آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے

ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے

ہو جو اس چشم مست سے بے خود
پھر اسے ہوشیار کون کرے

تم تو ہو جان اک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے

آفت روزگار جب تم ہو
شکوۂ روزگار کون کرے

اپنی تسبیح رہنے دے زاہد
دانہ دانہ شمار کون کرے

ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں
موت کا انتظار کون کرے

آنکھ ہے ترک زلف ہے صیاد
دیکھیں دل کا شکار کون کرے

وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں
تجھ کو امیدوار کون کرے

داغؔ کی شکل دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے


عمر گزرے گی امتحان میں کیا

عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا

خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا

شام ہی سے دکان دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا

اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا

دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا


آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا

آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا

بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا

جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا

یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا

محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا

خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا

پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا


محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا

محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا

گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا

تمام رشتوں کو میں گھر پہ چھوڑ آیا تھا
پھر اس کے بعد مجھے کوئی اجنبی نہ ملا

خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے
بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا


سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے
با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے

میں ترے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں
کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے

مجھ میں رہتا ہے کوئی دشمن جانی میرا
خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے

بت بھی رکھے ہیں نمازیں بھی ادا ہوتی ہیں
دل مرا دل نہیں اللہ کا گھر لگتا ہے

زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے


پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا

پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا
کسی بھی آئنے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا

بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا

ہزاروں شیر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ مرا زندہ نہیں رہتا

محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا


لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں

لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں

مے کدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے
خالی شیشوں کی طرح لوگ اچھلتے کیوں ہیں

نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں

میں نہ جگنو ہوں دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں
روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں


میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو

میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو لے آؤ زمیں پر رکھ دو

اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

میں نے جس تاک پہ کچھ ٹوٹے دیے رکھے ہیں
چاند تاروں کو بھی لے جا کے وہیں پر رکھ دو


رنگ اس موسم میں بھرنا چاہئے

رنگ اس موسم میں بھرنا چاہئے
سوچتی ہوں پیار کرنا چاہئے

زندگی کو زندگی کے واسطے
روز جینا روز مرنا چاہئے

دوستی سے تجربہ یہ ہو گیا
دشمنوں سے پیار کرنا چاہئے

پیار کا اقرار دل میں ہو مگر
کوئی پوچھے تو مکرنا چاہئے


انجم رہبر

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے

دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے

پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں سوتے میں ہماری
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے

یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں
اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے

اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

اس شہر کے بادل تری زلفوں کی طرح ہیں
یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں آتے

احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے


یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو

یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلہ سے ملا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو جو سنا نہیں وہ کہا کرو

کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمیٔ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو


نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

سنا دیں عصمت مریم کا قصہ
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم

زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم

ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم

اٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم

جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

برہنہ ہیں سر بازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم

چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم

یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم


تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو

میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو

تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مروت ہو

تم ہو پہلو میں پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو

تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہو

کس طرح چھوڑ دوں تمہیں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو

کس لئے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو

داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو

Sunday, 17 November 2024

ﻧﺌﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺟﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ


ﮐﯿﺎ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ؟
ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ
ﻧﭽﻮﮌ ﺩﻭ ﮔﮯ ؟
ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮔﮯ ﻏﻢ ﮨﻤﺎﺭﮮ
ﺟﺐ ﺩﻝ ﺑﮭﺮﮮ ﮔﺎ
ﺗﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﮔﮯ؟
ﺑﺘﺎﺅ ﺟﺎﻧﺎﮞ ۔۔۔
ﯾﮩﯽ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ؟
ﯾﮧ ﺑﮯ ﺿﺮﺭ ﺳﺎ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ
ﻋﺎﺟﺰﯼ ﮐﺎ ﻟﺒﺎﺱ ﺍﻭﮌﮬﮯ
ﻏﻠﯿﻆ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺑﮩﺎ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﻋﺘﺎﺏ ﻋﺒﺮﺕ
ﺑﮩﺖ ﺗﺴﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﭼﭗ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﭼُﭗ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ؟
ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ
ﮨﯽ ﮔُﭗ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ۔۔ ؟
ﺗﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﻏﻼﻡ ﺩﻝ ﺳﮯ
ﻧﮑﺎﻝ ﭘﮭﯿﻨﮑﻮ
ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﺁﺋﮯ
ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻣﯿﺮﯼ
ﻭﮦ ﺷﺎﻝ ﭘﮭﯿﻨﮑﻮ ۔۔
ﻭﮦ ﺷﺎﻝ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺟﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ
ﺍﺩﮬﺎﺭ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ ۔۔۔۔۔۔
ﻭﮦ ﺷﺎﻝ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﺰﺍﮞ ﭼﮭﭙﺎ ﮐﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﺎﻃﺮ ،
ﺑﮩﺎﺭ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﭼﮭﻮﮌﮮ
ﺗﻮ ﺍﺳﮑﻮ ﮐﮩﻨﺎ
ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮑﻮ ثاقی ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﻧﮧ ﻓﮑﺮ ﮐﺮﻧﺎ
ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮧ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﻧﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺼﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﮕﻨﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﻭﻧﮕﺎ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮑﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺗﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﻭﻧﮕﺎ ۔۔۔۔
ﻣﮕﺮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺑﺪﻝ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ۔۔۔۔
ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺟﻮ ﻣﻔﺖ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺏ ﺗﻢ ﺍﻧﮑﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮ
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺻﻔﺤﮧ
ﺗﻢ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﮐﺘﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﭼﮭﻮﮌﯼ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﻨﺎﺏ ﭼﮭﻮﮌﯼ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﻭﻋﺪﮮ ﺗﻮﮌﮮ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﯾﻮﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﻮﮌﮮ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻼ ﺗﮭﺎ ثاقی
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﻼ ﺗﮭﺎ ثاقی
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﭼُﭗ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﻟﮑﮭﻮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﮔُﭗ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺗﻮ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﻠﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﺍﮐﯿﻼ
ﺟﯽ ﮐﮯ ﻣﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ
ﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﺎ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ
ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ
ﺳﭻ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ
ﻧﮧ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ
ﺗﻮ ﭼﮭﻮﮌﻭ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﺎﺭﮮ
ﻓﻘﻂ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﻦ ﻟﻮ
ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﻋﺬﺍﺏ ﺳﻦ ﻟﻮ
ﮐﮧ
ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮔﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﺠﺮﮦ
ﺗﻮ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﺎ ﻋﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﻟﭩﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﻮﻟﯽ ﭘﺮ ﻭﮦ
ﺍﻧﺎ ﺍﻟﺤﻖ ﮐﺎ ﺟﻨﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﻭﮞ
ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﺍﻝِ ﺑﺪﻭﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﺨﻮﮞ ﺑﮭﮍﮎ ﺑﮭﮍﮎ ﮐﺮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﺳﮑﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﯿﻠﻮﮞ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺷﮑﺴﺘﮧ ﺳﺘﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﻟﻮﮞ ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﺳﺎﺭﯼ
ﮐﺒﮭﯽ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ۔۔۔
ﺍﮔﺮ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﻧﮩﯽ ﯾﮧ ﮐﺎﻓﯽ۔۔۔۔۔
ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﮏ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺗﻮ ﻓﺎﺭﮨﮧ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ
ﻧﺌﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺟﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ۔۔۔
ﺳﻦ ﻟﯿﺎ ﻧﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ؟
ﺟﻮﻥ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ
ﺟﻮﻥ ﮨﻮﮞ ميں۔۔

Friday, 15 November 2024

تو کہانی ہی کے پردے

تو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے
زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی


اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ تو میں تمہارا

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ تو میں تمہارا
یا اس پہ مبنی کوئی تأثر کوئی اشارا تو میں تمہارا

غرور پرور انا کا مالک کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے
مگر قسم سے جو تم نے اک نام بھی پکارا تو میں تمہارا

تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو میں جیسے چاہے لگاؤں بازی
اگر میں جیتا تو تم ہو میرے اگر میں ہارا تو میں تمہارا

تمہارا عاشق تمہارا مخلص تمہارا ساتھی تمہارا اپنا
رہا نہ ان میں سے کوئی دنیا میں جب تمہارا تو میں تمہارا

تمہارا ہونے کے فیصلے کو میں اپنی قسمت پہ چھوڑتا ہوں
اگر مقدر کا کوئی ٹوٹا کبھی ستارا تو میں تمہارا

یہ کس پہ تعویذ کر رہے ہو یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے
تمام چھوڑو بس ایک کر لو جو استخارہ تو میں تمہارا

Thursday, 14 November 2024

جس طرح آپ نے بیمار سے رخصت لی ہے

خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے

ہم نہ مجنوں ہیں نہ فرہاد کے کچھ لگتے ہیں
ہم کسی دشت تماشے میں نہیں آئیں گے

مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی
درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے

اس کی کچھ خیر خبر ہو تو بتاؤ یارو
ہم کسی اور دلاسے میں نہیں آئیں گے

جس طرح آپ نے بیمار سے رخصت لی ہے
صاف لگتا ہے جنازے میں نہیں آئیں گے

Wednesday, 13 November 2024

قیس جنگل میں اکیلا ہے

قیس   جنگل  میں   اکیلا   ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

ملاقات ہو گئی

نقشہ  اٹھا  کے کوئی  نیا  شہر  ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی

Tuesday, 12 November 2024

‏میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا

‏میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
مرے   انجام  کی وہ   ابتدا  تھی

ہم اپنی جان کے دشمن کو

ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو  ہندستان  کہتے   ہیں


کسی کا عہد جوانی میں پارسا ہونا

کسی کا عہد جوانی میں پارسا ہونا
قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی

‏محسوس ہو رہا ہے

‏محسوس ہو رہا ہے کہ میں خود سفر میں ہوں
جس دن سے   ریل  پر میں تجھے چھوڑنے گیا

Monday, 11 November 2024

میرے آنگن سے پرندے نہ اڑاؤ لوگو

‏ہم نے لہجوں کو سمجھنے کی ریاضت کی ہے 
ہم کو آداب نہ جینے کے سکھاؤ لوگو 

انکی آواز سے لگتا ہے کہ زندہ ہوں ابھی . ۔
میرے آنگن سے پرندے نہ اڑاؤ لوگو

‏سارا ہی شہر اس کے جنازے میں تھا شریک

‏سارا ہی شہر اس کے جنازے میں تھا شریک...
تنہائیوں کے خوف سے جو شخص مر گیا...

Sunday, 10 November 2024

چلے آیا کرو میری طرف بھی! محبت کرنے والا آدمی ہوں

یہ مت پوچھو کہ کیسا آدمی ہوں
کرو گے یاد، ایسا آدمی ہوں

مرا نام و نسب کیا پوچھتے ہو!
ذلیل و خوار و رسوا آدمی ہوں

تعارف اور کیا اس کے سوا ہو
کہ میں بھی آپ جیسا آدمی ہوں

زمانے کے جھمیلوں سے مجھے کیا
مری جاں! میں تمہارا آدمی ہوں

چلے آیا کرو میری طرف بھی!
محبت کرنے والا آدمی ہوں

توجہ میں کمی بیشی نہ جانو
عزیزو! میں اکیلا آدمی ہوں

گزاروں ایک جیسا وقت کب تک
کوئی پتھر ہوں میں یا آدمی ہوں

شعورؔ آ جاؤ میرے ساتھ، لیکن!
میں اک بھٹکا ہوا سا آدمی ہوں

Wednesday, 22 May 2024

‏میں تو ہر حال میں خوش ہوں

‏میں تو ہر حال میں خوش ہوں مرے مالک لیکن
تیرے منکر مجھےدیکھیں گے تو کیا سوچیں گے

Friday, 10 May 2024

میں نے مزدوروں کے ماتھے

میں نے مزدوروں کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا
جن کے پیسوں سے امیروں نے مدینہ دیکھا

Friday, 26 April 2024

بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے

بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے 
سب منتظر ہیں سامنے تشریف لائیے 

آواز میں تو آپ کی بے شک خلوص ہے 
لیکن ذرا نقاب تو رخ سے ہٹائیے 

*ہم مانتے ہیں آپ بڑے غم گسار ہیں* 
*لیکن یہ آستین میں کیا ہے دکھائیے*
 
اب قافلے کے لوگ بھی منزل شناس ہیں 
آخر کہاں کا قصد ہے کھل کر بتائیے

بادہ کشوں کی اصل جگہ میکدے میں ہے 
کس نے کہا کہ آپ بھی منبر پہ آئیے

Wednesday, 3 April 2024

‏مِٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر

مِٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر
چوپال پہ بُوڑھوں کی کہانی بھی سنا کر

معلوم ہُوا ہے یہ پرندوں کی زبانی
تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر

پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں
خیرات میںں چاندیں کا تقاضا نہ کیا کر

ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چُھپے ہوں
تُو شہرِ اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر

کیا خُوب لڑکپن تھا کہ ساون کے دنوں میں
تسکین ملا کرتی تھی بارش میں نہا کر

مانگے ہوئے سورج سے تو بہتر ہے اندھیرا
تُو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دُعا کر

ترتیب ترے حُسن کی مٹ جائے گی اک دن
دیوانے کی باتوں کو نہ بے ربط کہا کر

تحریر کا یہ آخری رشتہ بھی گیا ٹوٹ
کتنا ہوں میں تنہا ترے مکتوب جلا کر

آتی ہیں بہت رات کو رونے کی صدائیں
ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر

وہ قحطِ ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ
جگنو کو لئے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر

رفیق سندیلوی

جلد بچھڑیں گے یہ آثار نظر آتے ہیں

‏میں بتاؤں گی نہیں تم کو مگر آتے ہیں جلد  بچھڑیں گے یہ  آثار  نظر  آتے ہیں بعد میں جا کے اکڑتے ہیں، خدا بنتے ہیں و...